تحریر: سمیراانور، جھنگ
’’سومیہ،سومیہ۔۔۔تم سنتی بھی نہیں ہو ۔۔آج کہاں کھوئی ہو ؟‘‘ مٹھو نے اپنی چونچ پنجرے سے باہر نکال کر غصے سے اس کی طرف دیکھا جو گھاس پر بیٹھی خاموش نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
’’ مٹھوتمہاری یہ عادت بہت بری ہے ،تمہارا تیز اسپیکر کسی کو کچھ دیر کے لیے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا ‘‘ مینا نے اس کے پنجرے کی طرف گھومتے ہوئے کہا ۔
’’ دیکھو مینا ۔۔میں سومی کی وجہ سے تمہارا لحاظ کر جاتا ہوں لیکن تم ہو کہ ہر بات میں اپنی ٹانگ اڑانا پسند کرتی ہو۔۔۔مجھے بھی تمہاری یہ عادت زہر لگتی ہے ‘‘ مٹھو اپنی گول مٹول آنکھیں سے اس کو کھا جانے والے انداز سے دیکھا
’’ تم دونوں ہر وقت لڑتے رہتے ہو ۔۔اپنا جھگڑا چھوڑ کر سومیہ باجی کی طرف دیکھو جن کی پیاری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں وہ ہم سے بہت پیار کرتی ہیں اور ہمارا بہت خیال رکھتی ہیں تو کیا ہمیںزیب دیتا ہے یوں اپنی لڑائی میں الجھ کر ان کو بھول جائیں ‘‘ لال چڑیا نے پنجرے کے دوسرے خانے میں چھلانگ لگاتے ہوئے دونوں کو سومیہ کی طرف متوجہ کیا ۔
’’ ہاں ۔۔۔وہ ہماری اچھی دوست ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی خوشی غمی کا خیال رکھیں ‘‘کبوتر میاںنے بھی اپنے پر پھڑ پھڑ ائے ہوتے کہا
دراصل سومیہ ایک پیاری سی لڑکی تھی ۔وہ اپنی امی کے ساتھ ایک ریگستانی گائوں میں رہتی تھی ۔اس گائوں میں پانی کی بہت قلت تھی اگر چند ایک پانی کے کنوئیں بھی تھے تو بہت دور دور واقع تھے ۔سومیہ بہت نرم دل کی مالک تھی وہ ہر کسی کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی تھی ۔اس کی فرمائش پر ماموں جان نے اس کو بہت سے پرندے رکھ دیے تھے تاکہ وہ ان کے ساتھ کھیلتی رہے ۔مٹھو تو بہت زیادہ بولتا تھا اور اس کے ہر لفظ کی سومیہ کو سمجھ بھی آجاتی تھی ۔مٹھو باقی پرندوں کی زبان بھی جانتا تھا اور پھر اپنی زبان میں سومیہ کو بتاتا کہ سب کیا کہنا چاہتے ہیں ۔
’’ سومیہ باجی اب بتائو بھی سہی ۔۔۔ہم سب پریشان ہو رہے ہیں ‘‘ مٹھو نے پھر سے اپنی تیز چونچ پنجرے پر رکھتے ہوئے پوچھا
’’ دوستو! تم جانتے ہو یہاں قریب ہی ایک پر ائمری اسکول ہے جس میں پانی پینے کے لیے صرف ایک ہی نلکا تھا جو کل سے پانی دینا بند کر چکا ہے اب پریشانی اس بات کی ہے کہ وہ سب ننھے بچے پانی کہاں سے پئیں گے ؟ اس طرح پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے امی ،ابو ان کو اسکول سے اٹھوا لیں گے اور وہ تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے ‘‘ سومیہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
’’ آج انھوں نے اپنے لیے پانی کا بندوبست کیسے کیا ؟ سب بچے پھر کل سے اسکول نہیں آئیں گے ‘‘ مینا نے مٹھو کی طرف دیکھتے ہوئے سر گوشی کی جسے سمجھ کر اس نے سومیہ سے یہی بات پوچھی تو وہ بولی:
’’ آج تواسکول کی انتظامیہ نے قریبی کنویں سے پانی منگوا لیا ہے لیکن یہ ان کے پینے کا مستقل انتظام تو نہ ہوا اور تمہیں معلوم تو ہے کہ ہر طرف پانی کی کمی ہے اگر اس کنویں کے مالکان نے مزید پانی دینے سے انکار کیا تو سب بچوں کے لیے اس اسکول میں آنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ اس گرمی کے موسم میں ان کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے ‘ ‘
’’ سومیہ ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں ؟ ہمیں بھی اس بات کا بہت دکھ ہے ‘‘ مٹھو نے غمزدہ لہجے میں کہا
’’ تم اللہ سے دعا کرو ۔۔۔جو تجویز میرے ذہن میں ہے اس پر میں اچھے طریقے سے عمل بھی کر سکوں ‘‘ سومیہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’ اگر ہوسکے تو ہمیں بھی اس نیکی میں شامل کرلو‘‘مٹھو نے سب کے اثبات میں ہلتے سر دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ ٹھیک ہے تم سب میرے دوست ہو اور اس مشکل میں میرا ساتھ دو گے تو اس سے بڑھ کر میرے لیے اور کیا ہو گا ‘‘ سومیہ نے خوشی سے کہتے ہوئے اپنی تجویز انھیں بتا دی اور پھر ان کی خوراک کا انتظام کرنے میں مگن ہو گئی ۔
’’ مٹھو یہ سب کیسے ہو گا؟ مینا نے گہری سوچ میں ڈوبے مٹھو کی طرف دیکھتے ہوئے بے ساختہ ہی پوچھا ۔
’’ ہاں مٹھو ہم نے سومیہ کی مدد کرنے کی حامی تو بھرلی ہے مگر اتنا اہم کام کیسے ہم چاروں سر انجام دیں گے ‘‘ لال چڑیا نے بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پریشانی سے کہا
’’ کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی مایوسی کی باتیں کرنے سے اس کام میں بگاڑ ضرور آ جاتا ہے ‘‘ کبوتر نے ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا
’’ اس کام میں ہمیں صرف ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا ‘‘ مٹھو نے تحمل سے سب کو سمجھاتے ہوئے کہا
٭٭
اگلے دن وہ چاروں اپنے اپنے پنجرے سے اڑ گئے ۔مٹھو نے سب کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا ۔مینا اور لال چڑیا ایک طرف کو اڑ گئیں اور کبوتر کو مٹھو نے اپنے ساتھ لے لیا ۔
’’ دوستو آج انسان کو ہماری مدد کی ضرورت ہے انھوں نے ہی ہمارے لیے یہ خوبصورت جنگل لگائے ہیں تاکہ ہم یہاں بسیرا کر سکیں ‘‘ مٹھو نے جنگل میں پہنچ کر سب اپنے دوست پرندوں کو اکھٹا کرتے ہوئے کہا۔
’’ انسان دوست پرندوں ! ان دلکش اور میٹھے پھلوں سے لدے باغات سے زیادہ مستفید کون ہوتا ہے ؟ مینا نے امرود کے درخت پر بیٹھتے ہوئے اپنے اردگرد موجود سب پرندوں سے پوچھا۔
’’ یہ باغات ہی ہمارے لیے خوشگوار زندگی کا ذریعہ ہیں اس لیے ہم سب ہی ان سے زیادہ لطف اٹھاتے ہیں ‘‘ بلبل نے چہکتے ہوئے کہا
’’ تو آج انسانوں کے گلشن تمہاری مدد کی اشد ضرورت ہے ‘‘ لال چڑیا نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس پر سب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا :’’ ہم ان کی مدد کے لیے تیار ہیں ‘‘
’’ تو دوستو! پھر آج شام ہی یہ کام شروع کر دیا جائے ‘‘ کبوتر نے سب کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’ منظورہے ۔۔۔منظور ہے ‘‘ جنگل سے آوازیں ہوتی ہوئیں باغ تک جا پہنچیںجسے سن کر وہاں بھی شور مچ گیا ۔
اگلی صبح اسکول کی انتظامیہ نے حیران کن منظر دیکھا ۔نلکے والی جگہ کے ارد گرد پرندوں کی بڑی تعداد نے کھدائی شروع کر رکھی تھی ۔سب نے ان کو ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے ۔دور دور سے لوگ پرندوں کی جفاکشی دیکھنے آرہے تھے اور ان کو داد دے رہے تھے ۔کسی رپورٹرنے وہ خبر سوشل میڈیا پر پھیلا دی ۔بس پھر کیا ہواحکومتی افسران نے ساری صورت حال کا جائزہ لیا کیونکہ مسلسل تین دن سے پرندے وہ جگہ نہیں چھوڑ رہے تھے ۔انھوں نے نہ صرف اسکول میں زمین دوز پانی کی پائپ لائن کا بل پاس کیا بلکہ فوری طور پر اس پرانے نلکے کی جگہ نیا موٹر پمپ لگا دیا گیا اور پانی کی بحالی ہوتے ہی وہ سب انسان دوست پرندے وہاں سے ٹولیوں کی شکل میں اڑتے ہوئے واپس اپنے باغوں اور جنگلوں میں چلے گئے ۔البتہ سومیہ اپنے چاروں دوستوں کی طرف تشکر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگی :’’مشکل سے مشکل کام بھی اگر ہمت اور یقین سے کیا جائے تو ریگستانوں کو بھی گلزار بنا سکتا ہے ‘‘ اس کے پیارے دوست اب ننھے بچوں کو خوشی سے جھومتا دیکھ کر خود بھی خوشی سے گانے گا رہے تھے ۔
Tags: islamic short stories for toddlers in urdu urdu child stories urdu stories for kids with author name children's books in urdu yaqeen ki jang by sumaira anwar یقین کی جنگ (بچوں کیلئے کہانی ) سمیرا انور بچوں کی ویب - bachon ki web