https://bachonkiweb.com - bachon ki web - بچوں کی ویب

آزادی کا مطلب

تحریر: عاطف فاروق

رات کے گیارہ بجنے کو تھے مگر نور فاطمہ ، زینب اور یوسف کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ صبح ۱۴اگست کی چھٹی تھی اس لئے تینوں بہن بھائیوں کو سونے کی جلدی بھی نہیں تھی ۔
’’ کیوں نہ دادا جان سے کہانی سنیں ؟‘‘ زینب نے مشورہ دیا تو نور فاطمہ اور یوسف نے اس کی تائید کی اور پھر کیا تھا تینوں دادا جان کے کمرے کی طرف چل پڑے ۔ دادا جان کے کمرے کی بتی روشن تھی اور ٹیلی ویژن کی آواز بھی قدرے سنائی دے رہی تھی ، جس کا مطلب یہ تھا کہ دادا جان ابھی جاگ رہے ہیں ۔ دستک دینے کے بعد تینوں بچے کمرے میں داخل ہوگئے ۔
’’ ارے ….. تم لوگ ابھی تک سوئے نہیں ؟ ‘‘ دادا جان رات کے اس وقت بچوں کی آمد پر حیران ہوگئے ۔
’’ دادا ابو ! ہمیں نیند نہیں آرہی اور ہم آپ سے کہانی سننے کیلئے آئے ہیں ۔‘‘ نور فاطمہ وضاحت دیتے ہوئے بولی ۔
’’ ہاہاہا ‘‘ دادا جان نے اپنے روایتی انداز میں زوردار قہقہہ لگایا اور بچوں کو بستر پر آنے کا اشارہ کیا ۔
تینوں بہن بھائی جھٹ سے بستر میں گھس گئے ۔
دادا جان نے ٹیلی ویژن کی آواز بند کردی اور تکیے سے ٹیک لگاکر نیم دراز ہوگئے ۔
’’ بچو ! کسی ملک میں ایک شہزادی رہتی تھی ۔ بہت ہی حسین و جمیل بالکل پریوں جیسی ۔ شہزادی کو پرندوں سے بہت لگائو تھا ، یہاں تک کہ کئی پرندوں سے اس کی دوستی بھی تھی ۔ سبھی پرندے دن میں باری باری اسے ملنے آتے تھے ۔ ان ہی پرندوں میں ایک کوئل بھی تھی جو ہر صبح شہزادی کے کمرے کی کھڑکی میں آتی اور اپنی سریلی آواز سے شہزادی کو خوشی کے گیت سناتی ۔ شہزادی کو کوئل بہت پسند تھی ، اسے کوئل کی مدھر آواز اس قدر پسند تھی کہ اس کا دل چاہتا کہ کوئل ہر وقت اس کے ساتھ رہے اور وہ سارا دن کوئل سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی رہے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ شہزادی نے کوئل کو پکڑ کر چاندی کے پنجرے میں بند کردیا ۔ پنجرہ بہت خوبصورت اور وسیع تھا اور اس میں کوئل کی دلچسپی کیلئے رنگ برنگے پھول اور پتیاں رکھے گئے تھے ۔ ساتھ ہی مختلف انواع کے پھل اور مشروب بھی کوئل کی ضیافت کیلئے میسر تھے ۔ ان سب آسائشات کے باوجود جیسے ہی کوئل کو پنجرے میں بند کیا گیا ، اس پر گہری اداسی نے ڈیرے ڈال لئے ۔ اب کوئل نہ گیت گا رہی تھی اور نہ ہی کھانے والی کسی چیز کو کھا رہی تھی ۔ کچھ ہی دنوں میں کوئل کمزور ہوگئی تب شہزادی کو ساری بات سمجھ میں آئی اور اس نے کوئل کو آزاد کردیا ۔ اگلی صبح کوئل پہلے ہی کی طرح شہزادی کے کمرے میں موجود تھی اور اپنی خوش گُلو آواز سے شہزادی کا دل لبھا رہی تھی ۔‘‘
کہانی ختم ہوتے ہی بچوں کے چہروں پر کھلکھلاہٹ رقص کرنے لگی اور وہ خوش ہوکر تالیاں بجانے لگے ۔
’’ تو بچو ! آج کی کہانی سے ہم نے کیا سیکھا ؟ ‘‘ دادا جان نے ننھی زینب کو گود میں لیتے ہوئے پوچھا ۔
’’ دادا ابو ! یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ پرندوں کو قید نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ اداس ہوجاتے ہیں بالکل کوئل کی طرح ۔‘‘ نور فاطمہ نے کہا ۔
’’ بالکل درست کہا ۔‘‘ دادا جان نور فاطمہ کو تھپکی دیتے ہوئے بولے ۔’’صرف پرندے ہی نہیں ، کسی بھی جاندار کو قید نہیں کرنا چاہیے ۔ ہر جاندار آزاد پیدا ہوا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اسے زنجیروں میں جکڑا جائے یا پابند سلاسل کیا جائے۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ آزادی کا ایک دن غلامی کے سو سال سے بہتر ہے ۔ اس لئے بچو! آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور غلامی بہت بڑی اذیت۔‘‘
’’ دادا ابو ! آپ ہمیں آزادی کے بارے میں کچھ بتائیں نا !‘‘ یوسف نے اصرار کیا ۔
’’ بچو ! آزادی کا مطلب ہے خودمختاری ۔ دوسرے لفظوں میں اپنی مرضی کے مطابق جو جی چاہے کرنے کا حق آزادی ہے ۔ فرانس نے تحریک فرانس کے بعد آزادی حاصل کی تو امریکہ نے ۱۸۷۵ء میں امریکی جنگ آزادی کے بعد ۔ روس ۱۹۱۷ء میں عظیم روسی تحریک کے نتیجے میں آزاد ہوا جبکہ کئی سال انگریزوں کی غلامی کاٹنے کے بعد ہمارا پیارا وطن پاکستان ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آیا ۔‘‘ دادا جان آزادی کے متعلق بتاتے جارہے تھے اور بچے ان کی باتوں کو غور سے سن رہے تھے ۔
’’ آزادی کی کئی اقسام ہیں جیسے سیاسی آزادی سے مراد ہے کہ قوم اپنے نمائندے اپنی مرضی سے منتخب کرکے حکومت قائم کرے اور عوام کی قائم کی ہوئی حکومت عوام کے مفاد میں بہترین فیصلے اور اقدامات عمل میں لائے ، اس میں کسی دوسرے ملک کی دخل اندازی نہ ہو ۔ مذہبی آزادی سے مراد یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی ہو ۔ شخصی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی زندگی بہتر بنانے کیلئے یکساں مواقع میسر ہوں ۔ معاشی آزادی سے مراد یہ ہے کہ ملکی معیشت کسی کی تابع نہ ہو ۔‘‘
’’ دادا ابو ! اگر آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص جو چاہے کرے، تو اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا ؟‘‘ نور فاطمہ نے اہم سوال کیا ۔
’’ بیٹا ! ہر ملک نے اپنے شہریوں کو کچھ حقوق فراہم کئے ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی پاکستان کے عوام کو چند حقوق دیتا ہے ۔ یہ حقوق بنیادی حقوق کہلاتے ہیں ۔ ان حقوق میں آزادی ء اظہار رائے کا حق ، مذہبی حقوق ، برابری و مساوات کے حقوق ، انصاف کی فراہمی کے حقوق و دیگر حقوق شامل ہیں ۔ یہ حقوق اور آزادی غیر مشروط نہیں ہیں ۔قانوناً ہم ان حقوق سے صرف اس وقت مستفید ہوسکتے ہیں جب تک ہمارے عمل سے کسی دوسرے شہری کے حقوق سلب نہ ہوں ۔ جیسے اظہار رائے کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی باعزت شہری کی ذاتیات کو نشانہ بناکر اس کی ہتک کریں یا کسی شارع عام یا معروف گزرگاہ کے عین وسط میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرکے راہ گیروں کا راستہ بند کردیں ۔ یہ قوانین اور حدبندیاں بہت ضروری ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوں تو بااثر اور باثروت افراد وہ سب کریں گے جو ان کا دل چاہے گا اور کمزور اور غریب افراد ان کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔‘‘
’’ دادا ابو ! آپ کی باتوں سے میرے علم میں اضافہ ہوا ہے ، یہ باتیں ہر پاکستانی شہری کو معلوم ہونا چاہییں ۔‘‘ یوسف بولا ۔
’’ اور ہر شہری کو آزادی کا احترام کرنا چاہیے ۔ ملکی قوانین پر عمل پیرا ہوکر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔‘‘ نور فاطمہ نے کہا ۔
’’ اور ….. اور ….. ہمیں نہ صرف خود قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے ۔‘‘ زینب نے بھی اپنی رائے شامل کی ۔
’’ شاباش میرے بچو! … چلو اب سب کھڑے ہوجائو … ۱۲ بج چکے ہیں ، جیسے ہی ۱۲ بج کر ایک منٹ ہوگا ٹیلی ویژن پر قومی ترانہ نشر کیا جائے گا … قومی ترانے کا احترام ہم سب پر لازم ہے ۔‘‘ دادا جان نے ٹیلی ویژن کی آواز کھولتے ہوئے کہا ۔
چند لمحوں بعد وہ سب کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھ رہے تھے ۔
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں