ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کردیا تو لوگ اس کو مارنے پیٹنے کے لئے دوڑے، آپ ﷺ نے فرمایا ’’اس کو چھوڑ دو، اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی ڈال کر بہادو، تم لوگ تو اس لئے برپا کئے گئے ہو کہ دین کی طرف لوگوں کو کھینچو اور دین کو ان کے لئے آسان بنائو، تمھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے مبعوث نہیں کیا کہ اپنے غیر حکیمانہ طرزِ عمل سے لوگوں کے لئے دین کی طرف آنا دشوار بنادو۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت یہ وصیت فرمائی : ’’ تم دونوں وہاں کے لوگوں کے سامنے دین کو اتنی خوبصورتی سے پیش کرنا کہ وہ انہیں آسان معلوم ہو ، ایسا ڈھنگ نہ اختیار کرنا جس کے نتیجہ میں دین کو لوگ دشوار محسوس کرنے لگیں، اور لوگوں کو اپنے سے مانوس کرنا ، انہیں اپنے سے نہ بِدکانا اور نہ متنفر کرنا ۔‘‘
جذبات کا احترام
حضرت مالک بن حویرث نے فرمایا کہ ’’ ہم چند عمر عصر نوجوان دین کا علم حاصل کرنے کے لئے حضور ﷺ کے پاس آئے۔ یہاں ہم نے بیس دن قیام کیا۔ نبی کریم ﷺ نہایت رحیم اور نرم معاملہ کرنے والے تھے ۔‘‘
آپ ﷺ نے محسوس کیا کہ ہم اپنے گھر جانا چاہتے ہیں ۔ تو آپ ﷺ نے ہم سے پوچھا کہ ’’تمھارے پیچھے کون لوگ ہیں ؟ ‘‘
ہم نے بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے بیوی بچوں میں واپس جائواور جو کچھ تم نے سیکھا ہے انہیں سکھائو اور بھلی باتیں بتائو اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھو اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھو، اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دے اور جو تم میں علم اور سیرت کے لحاظ سے بڑھا ہوا ہو وہ امامت کرے ۔‘‘
مخلوق پر شفقت
حضرت جریرا بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں صبح کے وقت بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں کچھ لوگ آئے تلواریں باندھے ہوئے ، موٹے کمبل لپیٹے ہوئے ، ان کے جسم کا بیشتر حصہ ننگا تھا اور ان میں سے زیادہ تر لوگ قبیلہ مضر کے تھے بلکہ سب ہی مضری تھے ۔ ان کے فقروتنگدستی کی حالت دیکھ کر نبی ﷺ کا چہرہ پریشانی کی وجہ سے زرد پڑگیا۔ پھر آپ ﷺ گھر میں گئے اور باہر آئے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں (نماز کا وقت ہوچکا تھا) تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور پھر تکبیر کہی۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد تقریر فرمائی جس میں آپ ﷺ نے سورہء نساء کی پہلی آیت اور پھر سورہ ء حشر کے آخری رکوع کی پہلی آیت تلاوت کی اور اس کے بعد فرمایا : ’’ لوگوں کو چاہیے کہ خدا کی راہ میں صدقہ کریں ، دینار دیں ، درہم دیں ، کپڑے دیں، گیہوں کا ایک صاع دیں۔‘‘ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر کسی کے پاس کھجور کا آدھا ٹکڑا بھی ہو تو وہ وہی دے ۔‘‘
تقریر سننے کے بعد انصار کا ایک آدمی اپنے ہاتھ میں تھیلی لئے ہوئے آیا جو ہاتھ میں سماتی نہیں تھی ۔ پھر لوگوں نے یکے بعد دیگرے صدقہ دینا شروع کردیا، یہاں تک کہ میں نے غذا اور کپڑے کے ڈھیر دیکھے ۔ لوگوں کے اس صدقہ دینے سے حضور ﷺ کا چہرہ دمک اٹھا ، گویا سونے کا پانی چڑھا دیا گیا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کرے تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور جو لوگ اس اچھے طیقہ پر بعد میں عمل کریں گے ان کا بھی اجر اس کو ملے گا بغیر اس کے ان عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی کی جائے ۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو جاری کیا تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور بعد میں جو لوگ اس برے طریقہ پر چلیں گے ان کا گناہ بھی اس کے نامہ ء اعمال میں لکھا جائے گا بغیر اس کے کہ برے طریقہ کے جاری کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی ہو ۔‘‘
اسلام کی دو بنیادی تعلیمات ہیں ، اول توحید ، دوسرے خدا کے محتاج بندوں پر رحمت و شفقت۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ پریشانی کی وجہ سے پیلا پڑگیا۔ اور جب ان کے لئے کپڑوں اور کھانوں کا کچھ انتظام ہوگیا تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سونے کی طرح دمکنے لگا ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی تقریر میں سورہ ء نساء کی پہلی آیت پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے ۔
’’اے لوگو ! اپنے پالنے والے کے غصہ سے بچنے کی فکر کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے دنیا میں بہت سے مردوعورت پھیلادئیے تو اپنے پالنے والے خالق یعنی اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی فکر کرو، جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو ، اور رشتہ داری کا لحاظ کرو اور ان کے حقوق کو پورا کرو ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہاری نگرانی کررہا ہے ۔‘‘
اور سورہ ء حشر کی جو آیت آپ ﷺ نے تلاوت فرمائی اور اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کے غصہ سے ڈرو، اور ہر آدمی کو اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کل قیامت کے لئے کیا ذخیرہ کررہا ہے ۔ اے لوگو! اللہ کے غصہ سے ڈرو، اللہ باخبر ہے تمہارے ان کاموں سے جو تم کرتے ہو ۔‘‘
جس آدمی نے صدقہ کرنے میں پہل کی تھی اس کی آپ ﷺ نے تعریف فرمائی اور بتایا کہ اس کو اپنے صدقہ کا ثواب بھی ملے گا اور اس بات پر بھی اس کو اجر ملے گا کہ اس کو دیکھ کر لوگوں میں صدقہ کرنے کی تحریک پیدا ہوئی ۔