https://bachonkiweb.com Bachon Ki Web بچوں کی ویب

اندھا فقیر – عبدالرئوف سمرا

سبطین گیارہ سال کا ایک سلجھا ہوا لڑکا تھا ۔اس کا باپ حمدان علی ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھاجب کہ سبطین کی امی رضیہ ایک پرائیویٹ اسکول میں معلمی کے پیشے سے وابسطہ تھی۔حمدان علی اور رضیہ کی خصوصی توجہ اور محنت کا اثر تھا کہ سبطین اتنا سلجھا ہوا اور شریف لڑکا تھا۔ اسے بچپن سے ہی اچھے کام کرنے کی عادت ڈالی گئی تھی اس لئے اسے جہاں کہیں موقع ملتا وہ نیکی کر گزرتا تھا۔
سبطین صبح اپنی امی اور ابو کے ساتھ مل کر ناشتہ کرتا تھا اور پھر حمدان علی دفتر چلا جاتا جبکہ رضیہ اور سبطین اسکول چلے جاتے تھے۔ اسکول سے واپسی پررضیہ سبطین کو اسکول سے ساتھ ہی لے آیا کرتی تھی۔ گھر آکر سبطین کو دوپہر کا کھانا بنا کر دیتی اور پھر سبطین کھانا کھا کر اکیڈ می میں ٹیوشن پڑھنے چلاجایا کرتا تھا۔ شام کو جب تک سبطین کی واپسی ہوتی تب تک حمدان علی بھی دفتر سے گھر آگئے ہوتے تھے اور پھر شام کا کھانا سب مل کر کھاتے تھے۔
ایک دن سبطین اکیڈمی سے پڑھ کر گھر واپس آیا تو کافی پریشان نظر آرہا تھا۔ رضیہ کیونکہ ماں تھی اس لئے اس نے فوراً بھانپ لیا کہ آج اس کا بیٹا کچھ پریشان ہے۔
’’ کیا بات ہے سبطین بیٹے !…..آج کچھ پریشان لگ رہے ہو۔ خیریت تو ہے نا ؟ ‘‘ شام کو کھانا کھانے کے لئے سب اکھٹے ہوئے تو رضیہ نے سبطین سے پوچھا۔
’’ کچھ خاص نہیں امی ۔ ‘‘ سبطین نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’ خاص ہو یا عام …پریشانی تو پریشانی ہوتی ہے بیٹے ۔ اپنی امی کو بھی نہیں بتاؤ گے کہ کیوں پریشان ہو ؟‘‘ رضیہ نے لاڈ سے پوچھا تو سبطین بتائے بغیر نہ رہ سکا۔
’’ کچھ دن پہلے کی بات ہے امی ۔۔۔۔ ‘‘ سبطین نے کہنا شروع کیا۔’’ میں اکیڈمی سے واپس آرہا تھا کہ کسی نے مجھے ’’ چھوٹے لڑکے ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔میں نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے پیچھے ایک میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اندھا کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھااور اس پیالے میں کچھ ریزگاری اور کچھ روپے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے مجھے بلایا ہے ؟ تو اس نے جواب میں کہا ’’ ہاں میں نے تمہیں آواز دی ہے۔‘‘ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ’’ اس کو کیسے پتا چلا کہ میں لڑکا ہوں اور چھوٹا بھی ہوں ‘‘تو اس نے کہا کہ’’ وہ پیدائشی اندھا ہے اور اسے اپنے قریب کھڑے لوگوں کے بارے میں اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کون ہے اور کس عمر کا ہے ۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا کام ہے اور کیوں آواز دی ہے؟‘‘ تو اس نے کہا ’’ میں اندھا ہوں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ مجھے یہ سڑک تو پار کرادواور مجھے اللہ کے نام پہ کچھ دو۔‘‘ میں نے اپنی جیب سے دس کا نوٹ نکالا اور اسے پکڑا ئے اور اس کا ہاتھ پکڑکر اسے سڑک پار کرانے لگا۔ چلتے ہوئے میں نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ اسے کیسے پتا چلا کہ میں اس کے قریب سے گزرا ہوں اور لڑکا ہوں۔‘‘ تو اس نے جواب دیا ’’ ہم فقیر لوگ ہیں ۔ کیا ہوا جو ظاہری آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے مگر میرا باطن اتنا حساس سے کہ وہ اپنے اردگرد چاروں طرف دیکھتا ہے۔ اس لئے میں نے فوراً پہچان لیا کہ تم لڑکے ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ فقیر چپ ہوگیا اور میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں اپنا سرہلادیا ۔ بحرحال میں نے اسے سڑک پار کروادی۔مگر امی جان آج ایک عجیب بات ہوئی جس نے مجھے پریشان کردیا ۔‘‘ اتنا کہہ کر سبطین چپ ہوا تو رضیہ نے جو بڑی توجہ سے اپنے بیٹے کی بات سن رہی تھی سوالیہ نظروں سے سبطین کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ’’ رک کیوں گئے بتاؤ نا کیا عجیب بات ہوئی؟‘‘
’’ آ ج میں نے پھر دوبارہ اس فقیر کو دیکھا ۔ لیکن آج اسے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے اس دن اپنی ایک نیکی ضائع کی ۔ ایک دھوکے باز شخص کے ساتھ نیکی کرلی ‘‘ یہ کہہ کر سبطین دوبارہ خاموش ہوگیا۔
’’ ایسی کون سی عجیب بات تم نے دیکھ لی جس نے تمہیں احسا س دلایا کہ تم نے اپنی ایک نیکی ضائع کی ؟‘‘ حمدان علی جو اب تک خاموشی سے تمام باتیں سُن رہا تھا اس نے سبطین کے خاموش ہونے پر پوچھا۔
’’ آج بھی وہ فقیر اسی جگہ بیٹھا تھا جہاں وہ مجھے اس دن ملا تھا۔مگر امی جان حیران کن بات یہ تھی کہ آج وہ فقیر اندھا ہرگز نہیں تھا بلکہ آج وہ خود کو ٹانگوں سے معذور بتا رہا تھا ۔ اف امی جان کتنے دھوکے باز ہوتے ہیں یہ لوگ! ‘‘ سبطین نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی تو حمدان علی اور رضیہ نے بیک وقت پر خیال انداز میں سرہلادیا۔
’’ بیٹا ایک بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور ضرورت مند ہر گز نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے اپنے ان کارناموں کی وجہ سے حقداروں کا حق بھی مار رکھا ہے ۔ یہ لوگ صرف نام کے فقیر ہوتے ہیں ان کو گداگر کہا جاتا ہے یہ لوگ فقیروں کے روپ میں بہروپئے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بیٹا تم اپنی نیکی ضائع ہونے کی فکر نہ کرو اللہ تعالی کسی کی بھی نیکی کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ تو نیکی کرنے والے کے اخلاص کو دیکھتا ہے ۔ اگر اخلاص ہو تو وہ نیکی کا صلہ بڑھ چڑھ کر دیتا ہے اور کسی کی نیکی کو جو بغیر کسی لالچ اور طمع کے کی گئی ہوضائع نہیں ہونے دیتا ۔ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ ’’ اِنَّمَاالاَعمَالُ بِاالنِیَات ‘‘ ترجمہ ’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔‘‘ یعنی اگر نیکی کرنے والے کی نیت اچھی ہوگی اور کسی بھی طمع اور لالچ کے بغیر ہوگی تو اسے اس کا بہترین صلہ اللہ تعالی سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نیکیوں کے انعام کی صورت میں ملے گااور اگر نیکی کرنے والے کی نیت میں کھوٹ یا کوئی لالچ ہوگا تو اللہ تعالی اس کی نیکی کو نہ صرف ضائع کردیںگے بلکہ اس کی نیکی اس شخص کے کھاتے میں ڈال دیں گے جس کے ساتھ آپ نے نیکی کی ہوگی۔ تم نے کیونکہ نیکی کرتے ہوئے اخلاص سے کام لیا تھا اور تمہاری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا اور تم نے یہ نیکی بغیر کسی طمع اور لالچ کے کی تھی اس لئے نیکی کے ضائع ہونے کی بات کرکے تم کفران نعمت کرنے کے ساتھ اللہ کی رحمت سے مایوسی کا اظہار بھی کر ر ہے ہو۔ تم نے نیکی کی اور اس وقت تمہارے دل میں اخلاص تھا اس لئے تمہاری اچھی نیت کی وجہ سے تمہارے رب کی طرف سے تمہیں اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ رہی بات اس فقیر کے دھوکہ دینے کی تو تم اس کی فکر نہ کرو اس کا معاملہ وہ جانے یا اللہ جانے آئندہ بھی کبھی ایسا موقع ملے تو نیکی کرتے وقت یہ ہرگز نہ سوچنا کہ یہ بظاہر ویسا نہیں ہے جیسا بن رہا ہے یا یہ کہ یہ تمہاری طرف سے نیکی کا حقدار ہے یا نہیں بلکہ پورے خلوص اور نیت کے ساتھ اس نیکی کو انجام تک پہچانا اور نیکی چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی کبھی بھی اس نیکی کو کرنے کا موقع نہ گنوانا ۔ انشاء اللہ اللہ تعالی تمہارے خلوص کو دیکھتے ہوئے اپنی رحمت سے تمہیں نواز دیں گے اور تمہاری خلوص سے کی گئی چھوٹی سی نیکی کا بھی بہت بڑا بدلہ دیں گے۔ ‘‘ حمدان علی نے سبطین کو سمجھا یا تو اس نے آئندہ کے لئے ایسی باتیں نہ سوچنے کا وعدہ کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں